Urdu Articles

حریت فکر کا میر کارواں پروفیسر وارث میر

”کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں اس کے اہل فکر و دانش کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ طبقہ جس قدر عصری تقاضوں کو سمجھنے اور تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلانے والا ہو، اسی قدر تیزی سے وہ قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے لیکن جس قوم کا دانشور طبقہ اپنے کردار سے غافل ہو جائے یا اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرے، اس قوم کے زوال کے امکانات بھی اسی قدر بڑھ جاتے ہیں“۔ یہ الفاظ معروف دانشور، صحافی اور لکھاری پروفیسر وارث میر کے ہیں جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے بدترین مارشل لا دور میں بھی حریت فکر کا علم بلند رکھا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بھاری قیمت بھی ادا کی۔ پروفیسر وارث میر کے جسمانی طور پر اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے باوجود ان کے افکار آج بھی زندہ ہیں۔

شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی لاہور کے سابق سربراہ پروفیسر وارث میر کی تحریروں میں پڑھنے والوں کو جگہ جگہ حریت فکر کے علمبرداروں سے ملنے کا موقع ملے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی حریت فکر کے ایک راہی تھے اور فکر اور سوچ پر پہرے کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ حریت فکر سے متعلق ان کی تحریروں میں ان دانشوروں کی جدوجہد کے قصے پڑھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اپنے ذہن و ضمیر پر ریاستی پہرے قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ انہیں اس کی بھاری قیمت اد ا کرنا پڑی۔وارث میرخود بھی ایک ایسی ہی حریتِ فکر کے راہی تھے جنہوں نے بے لاگ اور بے باک صحافت کی آبیاری خون دل سے کی اور اس کو نئی جان و جہت عطا کی۔

آج تین دہائیوں بعد بھی وارث میر کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظرآتا ہے اور وہ آج کے حالات میں بھی تازہ محسوس ہوتی ہیں۔ اپنی تحریروں میں پروفیسر وارث میر نے جہاں ان خوشامدی سیاستدانوں، صحافیوں اور ادیبوں کے بارے میں لکھا ہے جنہوں نے دنیاوی عہدوں اور آسائشوں کے حصول کے لئے اپنے ضمیر کا سودا کیا وہیں ماضی کے ان باضمیر اور باکردار دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کے بارے میں بھی بتایا جو حریت فکر کے راہی ٹھہرے اور جنہوں نے تمام تر لالچ، دھمکی اور دباؤ کے باوجود ببانگ دہل سچ لکھا اور بولا اور کسی دنیاوی مصلحت کا شکار ہونے سے انکاری رہے۔ دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر سچا دانشور لکھاری، صحافی اور ناقد، جس نے باغیانہ روش اپناتے ہوئے اپنے دور کے مروجہ دقیانوسی نظام اور اس کے پس پردہ کرداروں کا چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی، اُسے رد عمل میں ہر طرح کی مخالفت، مشکلات اور حتیٰ کہ فتوؤں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس امتحان میں سرخرو وہی اہل قلم و دانش ٹھہرے جو اپنے موقف کی سچائی پر قائم رہے اور اس جدوجہد میں اپنی جان سے گزر گئے۔ پروفیسر وارث میر کی زیادہ تر تحریریں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دورہی کی تخلیق ہیں جب صحافت پابندِ سلاسل تھی اور ترقی پسندی اور حریت فکر کا علم بلند کرنے والوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا جاتا تھا۔

9 جولائی1987ء کو اڑتالیس برس کی عمر میں ریاستی جبر کے باعث جوانمرگی کا شکار ہونے والے وارث میر ضیاء دور میں پروان چڑھنے والی درباری سیاست اور صحافت کو پاکستان کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے حریت فکر کا علم ہمیشہ بلند رکھا۔ وہ ایک روشن خیال اور لبرل سوچ رکھنے والے دانشور تھے، ان کی فکر جہادی نہیں بلکہ اجتہادی تھی، وہ تلوار کی بجائے قلم کی طاقت پر یقین رکھتے تھے اور مسلمانوں کو علم و خرد کا اسیر د یکھنا چاہتے تھے۔ فکری لحاظ سے وہ حریت فکر اور آزادی اظہار کے زبردست حامی تھے اور آمریت کی ہر شکل سے نفرت کی حد تک گریز کے قائل تھے۔

وہ مذہبی پیشوائیت اور ملائیت کے زبردست مخالف تھے۔ ان کا شمار مولانا حنیف ندوی مرحوم سے متاثر ان چند سرپھرے دانشوروں میں کیا جاسکتا ہے جو فقہ اسلامی کو بذریعہ اجتہاد عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔ وہ شاہ ولی اللہ، علامہ محمد اقبال، محمد علی جناح، اور سرسید احمد خان کے بھی اسی لئے معتقد تھے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو جدید علوم اور عصری تقاضوں سے آشنا ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ وارث میر مسلمانوں میں پائی جانے والی بے جاتقلید، رجعت پسندی اور فرقہ پرستی کے رجحانات کے سخت ناقد تھے۔

پروفیسر وارث میر نے وفات سے ایک روز قبل ناسازیٔ طبع کی وجہ سے اپنا آخری مضمون مجھے ڈکٹیٹ کروایا جس کا عنوان تھا ”کیا ترقی پسندانہ فکر سیم و تھور ہے؟“ یہ مضمون دراصل اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی الحمرا ہال لاہور میں کی جانے والی ایک تقریر کاجواب تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ا ور یہ کہ اس کی حکومت پاکستان کی زمین سے سیم و تھور کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی سرزمین سے بھی سیم و تھور ختم کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔

اپنے آخری جوابی مضمون میں پروفیسر وارث میر لکھتے ہیں:”نظریاتی سیم و تھور ختم کرنے کی بات کرنے والوں کا اصل مسئلہ پاکستان سے زیادہ اپنے اقتدار کا استحکام ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقبال اور جناح کے ترقی پسندانہ اور روشن نظریات کی سرزمین پاکستان میں آبیاری کی بجائے ان کی قوت نمو کو رجعت پسندانہ پالیسیوں کی سیم و تھور کے سپرد کردینے والوں کو مؤرخ کس نام سے یاد کریگا؟“ یہ مضمون ڈکٹیٹ کرواتے ہوئے وارث میر نے ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ میں مرنے سے پہلے ہر حالت میں جنرل ضیا کو جواب دینا چاہتا ہوں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے ”میں ظالم کو ظالم نہ کہنا گناہ سمجھتا ہوں“، چنانچہ وہ جان کی بازی ہار گئے لیکن اپنے قلم کی گرفت کمزور نہ ہونے دی۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وارث میرنے بے لاگ اور بے باک صحافت کی آبیاری خون دل سے کی بلکہ اس کو نئی جان و جہت عطا کی۔