Urdu Articles

پاکستان کی درباری سیاست و صحافت

پاکستان میں سیاست اور صحافت کئی دہائیوں سے خوشامد کا شکار ہیں۔ بظاہر پاکستانی میڈیا آزاد ہے لیکن حقیقت میں سسنرشپ کا شکار ہے، جب کہ یہی کچھ حال سیاست اور پارلیمنٹ کا ہے کہ پاکستانی سیاستدان اقتدار میں ہوکر بھی بااختیار ہیں اور نہ ہی ملک کے اہم فیصلے کرنے میں خودمختار۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور اب تک پاکستان کے بظاہر سیاسی حکمران ان قوتوں کے ہاتھوں سلب کی گئی اپنی آزادی کو آزاد کیوں نہ کروا سکے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اصل قصوروار ظالم جابر نہیں بلکہ وہ مظلوم ہیں جو خود پر ظلم تو برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنے خلاف ظلم کرنے والے کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور نہ ہی اس کا نام واضح طور پر بے نقاب کیا جاتا ہے۔

عدم اعتماد سے نئی حکومت بننے کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی برائے نام صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں کو ان دنوں پکڑا جارہا ہے اور ان کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات بھی بنائے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف کچھ نادان پی ٹی آئی کے آلہ کار وی لاگرز کی گرفتاری کو دانستہ یا نادانستہ میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دے رہے۔

مگر کیا آپ کسی جماعت کے آلہ کار شخص کو صحافی کہہ سکتے ہیں؟ نہیں! تو پھر آپ اس کے خلاف قانونی کارروائی کو میڈیا کی آزادی پر حملے کا نام کیسے دے سکتے ہیں؟ ہاں اگر کہیں غیر قانونی کارروائی کا معاملہ ہے تو پھر بطور شہری اس کے خلاف احتجاج ہوسکتا ہے اور اسے سیاسی یا انتقامی کارروائی ایک سیاسی کارکن کے خلاف کہہ سکتے مگر کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار جو مکمل طور پر حمایتی اور اپنی اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہو، سے متعلق کارروائی کو ذرائع ابلاغ پر حملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مجھے مرحوم پروفیسر وارث میر کا ’’دانشور ہرکارے‘‘ کے عنوان سے 5 نومبر 1985 کو نوائے وقت میں لکھا گیا مضمون یاد آگیا۔ جس میں وہ لکھتے ہیں ’’مولانا روم نے اپنی مثنوی میں ایک گدھے کی حکایت بیان کی ہے جس کی دم میں جھاڑی پھنس گئی اور وہ بے تحاشا بھاگنے لگا۔ لیکن جیسے جیسے وہ بھاگتا تھا ویسے ویسے جھاڑی کے کانٹے اس کی ٹانگوں کو اور لہولہان کرتے تھے۔

وہ گھبرا کر اور بھاگتا تھا، اس کا جسم اور ٹانگیں اور لہولہان ہوتے تھے۔ مولانا روم نے نصیحت کی کہ گدھے کو ایسے موقع پر کھڑا رہنا چاہیے تھا تاکہ اس کا مالک دم سے خاردار جھاڑی الگ کردیتا۔‘‘

وارث میر نے مزید لکھا کہ ایک دانشور مدیر نے گدھے کی یہ حکایت اور مولانا روم کی نصیحت سنا کر دوسرے دانشوروں کو عبرت پکڑنے کا مشورہ دیا کہ تم نے اپنی فکر کو لپیٹ کر رکھ دیا اور سیاسی جماعتوں کی وقتی مصلحتوں کا آلہ کار بن گئے۔

لہٰذا یہ ہرکارے کا کام تو ہوسکتا ہے مگر دانشور کا نہیں کیونکہ ایسے میں وہ خود دیکھنے کا کام بند کردیتا ہے اور صرف وہ دیکھتا ہے جو اسے سیاسی جماعت دکھاتی ہے۔ آج کل تحریک انصاف کے آلہ کار ہرکاروں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بنانے کا خود سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہمارے صحافی دوست شاہد میتلا کے ساتھ ایک ملاقات میں اعتراف کرچکے ہیں، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے خلاف بیانیہ بنانے کےلیے اس سیاسی جماعت کے مخالف نام نہاد صحافیوں کی ضرورت تھی۔

اب چونکہ جنرل باجوہ اعتراف کرچکے تو ایک اعتراف مجھے بھی کرنا ہے اور یہ کہ جب مسلم لیگ نواز کے خلاف ٹاؤٹ وی لاگرز کا بندوبست کیا جارہا تھا تو مجھے ایک یوٹیوبر دوست، جو اس وقت یوٹیوبر نہیں بلکہ محض ایک متحرک ٹویٹر صارف تھا اور اسی ہرکارے گروہ کا ساتھی ہے جو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے کیمپ میں رہ گئے ہیں، نے رابطہ کرکے پیشکش کی کہ آپ ہمارے ساتھ آجائیں اور اپنے مالی حالات بہتر کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ چند ہی ماہ میں معاشی طور پر کافی سنبھل جائیں گے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اس شاندار آفر کے بدلے مجھے کیا خدمات سرانجام دینی ہوں گی؟ تو انہوں نے بتایا آپ کو واٹس ایپ پر سب کچھ بتادیا جائے گا، پھر اس حساب سے بیانیہ اور ٹرینڈ بنانے ہوں گے۔

حالانکہ اس وقت میں پڑھائی اور صحافت کے ساتھ ایک جگہ ماہانہ چند ہزار روپے میں منشی گیری کا کام کررہا تھا لیکن دوسری طرف ماہانہ ہزاروں روپے کی پیشکش تھی۔ لیکن میں نے اپنے اس خیرخواہ کو یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میرا ضمیر نہیں مانتا کہ میں اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی کسی کا آلہ کار بن جاؤں۔

بہرحال وہ دوست کئی دن تک مجھے میری غریبی دور کرنے اور چند دنوں میں مشہور ہونے کا لالچ دیتے رہے لیکن میں نے بالآخر مجبوراً ان صاحب سے رابطہ منقطع کردیا۔

پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں، چاہے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلزپارٹی یا ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلانے والی مسلم لیگ نواز ہو یا پھر آزادی کا علم بلند کرنے والی پاکستان تحریک انصاف ہو، کسی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں، کیونکہ یہ تمام بے اختیار کرسی کے حصول کےلیے اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بنتے ہیں، جس کی تازہ مثال سابق فوجی سربراہ جنرل باجوہ کی توسیع تھی جس پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان کے علاوہ سب کا نہ صرف مکمل اکتفا تھا بلکہ موصوف جنرل کی خوشنودی کےلیے شدید مخالفت کے باوجود بھی مل بیٹھ کر ان کی توسیع کےلیے قومی اسمبلی سے قانون پاس کر ڈالا تھا۔

میں حیران ہوں نواز شریف سے مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری سے عمران خان تک کے لیڈران پر، جن کے ساتھ عوام کا بھرپور ساتھ ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ آخر کیوں جمہوریت دشمن قوتوں کے آگے جھکتے ہیں۔

یہ نادیدہ قوتیں کسی کی بھی نہیں ہیں۔ ایک دن مجھے سابق سینیٹر سردار سلیم جنھیں ذوالفقار علی بھٹو نے سینیٹر منتخب کرکے پاکستان کا سب سے پہلا نوجوان سینیٹر ہونے کا اعزاز بخشا، نے راولپنڈی میں اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ انہوں نے باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ بینظیر بھٹو نے اقتدار کی خاطر باپ کی شہادت کو قربان کردیا تھا اگر وہ شیخ حسینہ واجد کی طرح اپنے باپ کے مخالف کرداروں کو سزائیں دے دیتیں تو آج وہ زندہ جاوید ہوتیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بینظیر بھٹو نے باپ کے قاتلوں کو کیسے معاف کیا؟ تو ان کا جواب تھا کہ بینظیر بھٹو نے اقتدار کے حصول کےلیے اپنے باپ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قاتلوں کو معاف کردیا تھا جس کے بعد انہیں اقتدار مل گیا تھا لیکن بعدازاں ٹھیک اسی طرح ان کے قتل کے بعد آصف علی زرداری نے بھی حصول اقتدار کےلیے ویسا ہی کیا، جیسی غلطی خود بی بی شہید نے کی تھی۔ سردار سلیم کا کہنا تھا پیپلزپارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود بینظیر بھٹو کے قتل کیس کی صحیح معنوں میں کوئی پیروی نہیں گئی جبکہ ایک مرتبہ میں بطور پارٹی رہنما ان کے قتل کیس کی پیروی کرنے گیا تو مجھے جواب ملا کہ اس قتل کی پیروی صرف ان کے خاندان میں سے کوئی شخص کرسکتا ہے جو ان کا قریبی رشتے دار ہو۔

پاکستان میں سیاست اور صحافت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو جان بوجھ کر تقسیم کیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ ایک ساتھ مل کر ان قوتوں کےلیے سردرد نہ بن جائیں جو پردے کے پیچھے بیٹھ کر سامنے اپنے آلہ کار درباری سیاستدانوں اور صحافیوں کو پیش کرکے دھڑلے سے حکمرانی کرتے ہیں۔

لہٰذا ان کی یہ حکمرانی تب تک قائم رہے گی جب تک سیاستدان ان کے آلہ کار بن کر اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات انہیں پیش کرتے رہیں گے۔ دوسری جانب درباری صحافی جو محض طاقتور کی خوشنودی کے حصول کےلیے ان کے کلمہ گو ہیں اور حکومت وقت کے ہر اچھے اور برے کام کو ’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ کرتے ہیں، بھی اسی طرح پاکستان کےلیے ناسور ہیں جیسے عدل سے عاری قاضی، آلہ کار سیاسی اور بدعنوان بیوروکریسی۔

پاکستانی عوام کو چاہیے کہ ایسے ابن الوقت اور مفادات پر اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرنے والے سیاستدانوں سے بچیں جو بے اختیار کرسی کےلیے عام کارکنان کو اپنی آگ کا ایندھن بناتے ہیں۔ اور اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں ترقی اور آزادی چاہیے تو پاکستان کے پارلیمان، سیاستدان اور عدلیہ کو مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے سے آزاد کرانا ہوگا اور اس شکنجے سے خود کو نکالنے کےلیے ججز، صحافیوں اور سیاستدانوں کو صحیح معنوں میں غیر جمہوری قوتوں کے خلاف اپنے اختلافات بھلا کر مل جل کر درباری سیاستدانوں اور صحافیوں کو الگ کرکے ہی آزادی کے حصول کا خواب ممکن ہوپائے گا۔

تحریر:ملک رمضان اسراء
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس